شام کے بعد ستاروں کو سنبھلنے نہ دیا
رات کو روک لیا چاند کو ڈھلنے نہ دیا
موج باطن کبھی اوقات سے باہر نہ گئی
حد کے اندر بھی کسی شے کو مچلنے نہ دیا
آگ تو چاروں ہی جانب تھی پر اچھا یہ ہے
ہوشمندی سے کسی چیز کو جلنے نہ دیا
اب کے مختار نے محتاج کی دیوار کا قد
جتنا معمول ہے اتنا بھی نکلنے نہ دیا
جن بزرگوں کی وراثت کے امیں ہیں ہم لوگ
ان کی قبروں نے کبھی شہر بدلنے نہ دیا
غزل
شام کے بعد ستاروں کو سنبھلنے نہ دیا
احمد کمال پروازی