سفر نیا تھا نہ کوئی نیا مسافر تھا
وہی طلب تھی وہی آشنا مسافر تھا
دیار درد کی پر ہول رہ گزاروں میں
ترا خیال کوئی دوسرا مسافر تھا
جو دیکھتا ہوں تو دیوار آئنہ کے ادھر
مری ہی شکل کا اک بے نوا مسافر تھا
نظر ملی تھی گھڑی بھر کو پھر ملا نہ کبھی
نہ جانے کون تھا کس دیس کا مسافر تھا
غزل
سفر نیا تھا نہ کوئی نیا مسافر تھا
احمد مشتاق