رخصت شب کا سماں پہلے کبھی دیکھا نہ تھا
اتنا روشن آسماں پہلے کبھی دیکھا نہ تھا
دور تک پھیلا ہوا صحرا نظر آیا مجھے
ایک ذرہ بھی جہاں پہلے کبھی دیکھا نہ تھا
دیدنی تھا موج دریا کا نشاط بے پناہ
جلوۂ آب رواں پہلے کبھی دیکھا نہ تھا
اہل دنیا تو ہمیشہ ہی سے ایسے تھے مگر
عشق اتنا ناتواں پہلے کبھی دیکھا نہ تھا
دل پریشاں ہو گیا رنگ زوال حسن سے
آگ دیکھی تھی دھواں پہلے کبھی دیکھا نہ تھا
اس قدر حیراں نہ ہو آنکھوں میں آنسو دیکھ کر
تجھ کو اتنا مہرباں پہلے کبھی دیکھا نہ تھا
غزل
رخصت شب کا سماں پہلے کبھی دیکھا نہ تھا
احمد مشتاق