EN हिंदी
رات پھر رنگ پہ تھی اس کے بدن کی خوشبو | شیح شیری
raat phir rang pe thi uske badan ki KHushbu

غزل

رات پھر رنگ پہ تھی اس کے بدن کی خوشبو

احمد مشتاق

;

رات پھر رنگ پہ تھی اس کے بدن کی خوشبو
دل کی دھڑکن تھی کہ اڑتے تھے لہو میں جگنو

جیسے ہر شے ہو کسی خواب فراموش میں گم
چاند چمکا نہ کسی یاد نے بدلا پہلو

صبح کے زینۂ خاموش پہ قدموں کے گلاب
شام کی بند حویلی میں ہنسی کا جادو

صحن کے سبز اندھیرے میں دمکتے رخسار
صاف بستر کے اجالے میں چمکتے گیسو

جھلملاتے رہے وہ خواب جو پورے نہ ہوئے
درد بیدار ٹپکتا رہا آنسو آنسو