اس اندھے قید خانے میں کہیں روزن نہیں ہوتا
بکھر جاتے طبیعت میں اگر بچپن نہیں ہوتا
تجھے کیا علم کے ہر چوٹ پہ تارے نکلتے ہیں
وہ آدم ہی نہیں جس کا کوئی دشمن نہیں ہوتا
انہیں بھی ہم نے سیاروں سے واپس آتے دیکھا ہے
جہاں بس عشق ہوتا ہے کوئی ایندھن نہیں ہوتا
ہماری نا مرادی میں وفاداری بھی شامل ہے
اگر کچھ اور ہوتے تو یہ پیراہن نہیں ہوتا
بہت ممنون ہوں پھر بھی اندھیرے کم نہیں ہوتے
اگر تم میرے گھر ہوتے تو وہ روشن نہیں ہوتا
غزل
اس اندھے قید خانے میں کہیں روزن نہیں ہوتا
احمد کمال پروازی