دھڑکتی رہتی ہے دل میں طلب کوئی نہ کوئی
پکارتا ہے مجھے روز و شب کوئی نہ کوئی
شب الم ترے سادہ دلوں پہ کیا گزری
سحر ہوئی تو سنائے گا سب کوئی نہ کوئی
زبان بند ہے آنکھوں کے بند رہنے تک
کھلے گی آنکھ تو کھولے گا لب کوئی نہ کوئی
ہوائے ساز الم لاکھ احتیاط کرے
لرز ہی اٹھتا ہے تار طرب کوئی نہ کوئی
گھنے بنوں میں بھی رستہ نکل ہی آتا ہے
بنا ہی دیتی ہے قدرت سبب کوئی نہ کوئی
غزل
دھڑکتی رہتی ہے دل میں طلب کوئی نہ کوئی
احمد مشتاق