بھاگنے کا کوئی رستہ نہیں رہنے دیتے
کوئی در کوئی دریچہ نہیں رہنے دیتے
آسماں پر سے مٹا دیتے ہیں تاروں کا سراغ
ریت پر نقش کف پا نہیں رہنے دیتے
کوئی تصویر مکمل نہیں ہونے پاتی
دھوپ دیتے ہیں تو سایا نہیں رہنے دیتے
پہلے بھر دیتے ہیں سامان دو عالم دل میں
پھر کسی شے کی تمنا نہیں رہنے دیتے
شہر کوراں میں بھی آئینہ فروش آتے ہیں
بے تجلی کوئی قریہ نہیں رہنے دیتے
طور سینا ہو کہ آتش کدہ سوز نہاں
راکھ رہ جاتی ہے شعلہ نہیں رہنے دیتے
غزل
بھاگنے کا کوئی رستہ نہیں رہنے دیتے
احمد مشتاق