منہ میں واعظ کے بھی بھر آتا ہے پانی اکثر
جب کبھی تذکرۂ جام شراب آتا ہے
بیخود دہلوی
اپنی جنت مجھے دکھلا نہ سکا تو واعظ
کوچۂ یار میں چل دیکھ لے جنت میری
فانی بدایونی
جوانی کو بچا سکتے تو ہیں ہر داغ سے واعظ
مگر ایسی جوانی کو جوانی کون کہتا ہے
فانی بدایونی
مری شراب کی توبہ پہ جا نہ اے واعظ
نشے کی بات نہیں اعتبار کے قابل
حفیظ جونپوری
گناہ گار کے دل سے نہ بچ کے چل زاہد
یہیں کہیں تری جنت بھی پائی جاتی ہے
جگر مراد آبادی
کدھر سے برق چمکتی ہے دیکھیں اے واعظ
میں اپنا جام اٹھاتا ہوں تو کتاب اٹھا
where does lightening strike, priest, let us look
I will raise my glass you raise your holy book
جگر مراد آبادی
صداقت ہو تو دل سینوں سے کھنچنے لگتے ہیں واعظ
حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی
جگر مراد آبادی