EN हिंदी
وائرانی شیاری | شیح شیری

وائرانی

17 شیر

ہم سے کہتے ہیں چمن والے غریبان چمن
تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام

فیض احمد فیض




تمہارے رنگ پھیکے پڑ گئے ناں؟
مری آنکھوں کی ویرانی کے آگے

فریحہ نقوی




دل پر دستک دینے کون آ نکلا ہے
کس کی آہٹ سنتا ہوں ویرانے میں

گلزار




میں وہ بستی ہوں کہ یاد رفتگاں کے بھیس میں
دیکھنے آتی ہے اب میری ہی ویرانی مجھے

حفیظ جالندھری




ختم ہونے کو ہیں اشکوں کے ذخیرے بھی جمالؔ
روئے کب تک کوئی اس شہر کی ویرانی پر

جمال احسانی




تنہائی کی دلہن اپنی مانگ سجائے بیٹھی ہے
ویرانی آباد ہوئی ہے اجڑے ہوئے درختوں میں

کیف احمد صدیقی




اب جس طرف سے چاہے گزر جائے کارواں
ویرانیاں تو سب مرے دل میں اتر گئیں

کیفی اعظمی