EN हिंदी
شمما شیاری | شیح شیری

شمما

18 شیر

شمع کا شانۂ اقبال ہے توفیق کرم
غنچہ گل ہوتے ہی خود صاحب زر ہوتا ہے

حبیب موسوی




پروانہ کی تپش نے خدا جانے کان میں
کیا کہہ دیا کہ شمع کے سر سے دھواں اٹھا

اسماعیلؔ میرٹھی




شمع کے مانند ہم اس بزم میں
چشم تر آئے تھے دامن تر چلے

خواجہ میر دردؔ




پروانے آ ہی جائیں گے کھنچ کر بہ جبر عشق
محفل میں صرف شمع جلانے کی دیر ہے

ماہر القادری




شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لیے
ہم اسی آگ میں گم نام سے جل جاتے ہیں

the fire,that the flame burns in, for all to see
In that very fire I do burn but namelessly

قتیل شفائی




پروانوں کا تو حشر جو ہونا تھا ہو چکا
گزری ہے رات شمع پہ کیا دیکھتے چلیں

شاد عظیم آبادی




خاک کر دیوے جلا کر پہلے پھر ٹسوے بہائے
شمع مجلس میں بڑی دل سوز پروانے کی ہے

شیخ ظہور الدین حاتم