اور ہوتے ہیں جو محفل میں خموش آتے ہیں
آندھیاں آتی ہیں جب حضرت جوشؔ آتے ہیں
جوشؔ ملسیانی
اپنا لہو بھر کر لوگوں کو بانٹ گئے پیمانے لوگ
دنیا بھر کو یاد رہیں گے ہم جیسے دیوانے لوگ
کلیم عاجز
مری شاعری میں نہ رقص جام نہ مے کی رنگ فشانیاں
وہی دکھ بھروں کی حکایتیں وہی دل جلوں کی کہانیاں
کلیم عاجز
میں اپنے گھر کو بلندی پہ چڑھ کے کیا دیکھوں
عروج فن مری دہلیز پر اتار مجھے
خلیلؔ الرحمن اعظمی
میرؔ کا طرز اپنایا سب نے لیکن یہ انداز کہاں
اعظمیؔ صاحب آپ کی غزلیں سن سن کر سب حیراں ہیں
خلیلؔ الرحمن اعظمی
یادگار زمانہ ہیں ہم لوگ
سن رکھو فسانہ ہیں ہم لوگ
منتظر لکھنوی
ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
جو یاد نہ آئے بھول کے پھر اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
شاد عظیم آبادی