مری شاعری میں نہ رقص جام نہ مے کی رنگ فشانیاں
وہی دکھ بھروں کی حکایتیں وہی دل جلوں کی کہانیاں
یہ جو آہ و نالہ و درد ہیں کسی بے وفا کی نشانیاں
یہی میرے دن کے رفیق ہیں یہی میری رات کی رانیاں
یہ مری زباں پہ غزل نہیں میں سنا رہا ہوں کہانیاں
کہ کسی کے عہد شباب پر مٹیں کیسی کیسی جوانیاں
کبھی آنسوؤں کو سکھا گئیں مرے سوز دل کی حرارتیں
کبھی دل کی ناؤ ڈبو گئیں مرے آنسوؤں کی روانیاں
ابھی اس کو اس کی خبر کہاں کہ قدم کہاں ہے نظر کہاں
ابھی مصلحت کا گزر کہاں کہ نئی نئی ہیں جوانیاں
یہ بیان حال یہ گفتگو ہے مرا نچوڑا ہوا لہو
ابھی سن لو مجھ سے کہ پھر کبھو نہ سنو گے ایسی کہانیاں
غزل
مری شاعری میں نہ رقص جام نہ مے کی رنگ فشانیاں
کلیم عاجز