EN हिंदी
تری صدا کا ہے صدیوں سے انتظار مجھے | شیح شیری
teri sada ka hai sadiyon se intizar mujhe

غزل

تری صدا کا ہے صدیوں سے انتظار مجھے

خلیلؔ الرحمن اعظمی

;

تری صدا کا ہے صدیوں سے انتظار مجھے
مرے لہو کے سمندر ذرا پکار مجھے

میں اپنے گھر کو بلندی پہ چڑھ کے کیا دیکھوں
عروج فن مری دہلیز پر اتار مجھے

ابلتے دیکھی ہے سورج سے میں نے تاریکی
نہ راس آئے گی یہ صبح زر نگار مجھے

کہے گا دل تو میں پتھر کے پاؤں چوموں گا
زمانہ لاکھ کرے آ کے سنگسار مجھے

وہ فاقہ مست ہوں جس راہ سے گزرتا ہوں
سلام کرتا ہے آشوب روزگار مجھے