EN हिंदी
گلی گلی کی ٹھوکر کھائی کب سے خوار و پریشاں ہیں | شیح شیری
gali gali ki Thokar khai kab se KHwar o pareshan hain

غزل

گلی گلی کی ٹھوکر کھائی کب سے خوار و پریشاں ہیں

خلیلؔ الرحمن اعظمی

;

گلی گلی کی ٹھوکر کھائی کب سے خوار و پریشاں ہیں
یاں اپنا ہی ہوش نہیں ہے کس کو چاہ کے ارماں ہیں

فرصت ہو تو آ کے دیکھو ہم آوارہ گردوں کو
کتنے غبار ہیں اس دامن میں کتنے دل میں طوفاں ہیں

سب ہی ان کا ادب کرتے ہیں چاہنے والا کوئی نہیں
ٹوکا اک گستاخ کو لیکن اب وہ خود ہی پشیماں ہیں

سر جو جھکا اس شوخ کے آگے اور کہیں پھر جھک نہ سکا
مسلک مہر و وفا میں واعظ ہم کافر بھی مسلماں ہیں

کچھ کو مداوا کرنا ہوگا اس آشفتہ مزاجی کا
اے غم جاناں! اپنے پرائے سب ہی تجھ سے نالاں ہیں

وادی و صحرا چھوڑ کے جب سے تیرے شہر میں آن بسے
جنگل جنگل ڈھونڈتے پھرتے ہم کو سارے غزالاں ہیں

اہل زمانہ کو بس میری اک رسوائی یاد رہی
ورنہ میری وفا کے جانے کتنے اور بھی عنواں ہیں

ہم نے اپنی اور سے خوباں کب تم کو بد نام کیا
تم نے جو جو داغ دئیے ہیں وہ چھاتی پہ نمایاں ہیں

خیر سے اب کے اہل ستم کو دیوانوں سے کام پڑا
دیکھیں کتنی زنجیریں ہیں دیکھیں کتنے زنداں ہیں

جو پامال خزاں ہیں اک دن خاک چمن سے اٹھیں گے
ان کا حشر نہ جانے کیا ہو جو مقتول بہاراں ہیں

ڈر نہ رہا موج بلا کا رخ بھی پھرا دنیا کی ہوا کا
رونا کیا ہے دکھ ساگر کا اس کے ہم پر احساں ہیں

اک اک بوند جلی ہے لہو کی تب جا کر یہ رات کٹی
تیرے لیے اے صبح طرب ہم کب سے چاک گریباں ہیں

میرؔ کا طرز اپنایا سب نے لیکن یہ انداز کہاں
اعظمیؔ صاحب آپ کی غزلیں سن سن کر سب حیراں ہیں