EN हिंदी
منظر گزشتہ شب کے دامن میں بھر رہا ہے | شیح شیری
manzar guzishta shab ke daman mein bhar raha hai

غزل

منظر گزشتہ شب کے دامن میں بھر رہا ہے

شہریار

;

منظر گزشتہ شب کے دامن میں بھر رہا ہے
دل پھر کسی سفر کا سامان کر رہا ہے

یا رت جگوں میں شامل کچھ خواب ہو گئے ہیں
چہرہ کسی افق کا یا پھر ابھر رہا ہے

یا یوں ہی میری آنکھیں حیران ہو گئی ہیں
یا میرے سامنے سے پھر تو گزر رہا ہے

دریا کے پاس دیکھو کب سے کھڑا ہوا ہے
یہ کون تشنہ لب ہے پانی سے ڈر رہا ہے

ہے کوئی جو بتائے شب کے مسافروں کو
کتنا سفر ہوا ہے کتنا سفر رہا ہے