EN हिंदी
ریختہ شیاری | شیح شیری

ریختہ

12 شیر

کیوں نہ آ کر اس کے سننے کو کریں سب یار بھیڑ
آبروؔ یہ ریختہ تو نیں کہا ہے دھوم کا

آبرو شاہ مبارک




طبع کہہ اور غزل، ہے یہ نظیریؔ کا جواب
ریختہ یہ جو پڑھا قابل اظہار نہ تھا

جرأت قلندر بخش




گفتگو ریختے میں ہم سے نہ کر
یہ ہماری زبان ہے پیارے

میر تقی میر




اب نہ غالبؔ سے شکایت ہے نہ شکوہ میرؔ کا
بن گیا میں بھی نشانہ ریختہ کے تیر کا

محمد علوی




جا پڑے چپ ہو کے جب شہر خموشاں میں نظیرؔ
یہ غزل یہ ریختہ یہ شعر خوانی پھر کہاں

نظیر اکبرآبادی




یار کے آگے پڑھا یہ ریختہ جا کر نظیرؔ
سن کے بولا واہ واہ اچھا کہا اچھا کہا

نظیر اکبرآبادی




قائمؔ جو کہیں ہیں فارسی یار
اس سے تو یہ ریختہ ہے بہتر

قائم چاندپوری