EN हिंदी
نگاہ شیاری | شیح شیری

نگاہ

51 شیر

دیکھا ہے کس نگاہ سے تو نے ستم ظریف
محسوس ہو رہا ہے میں غرق شراب ہوں

عبد الحمید عدم




میں عمر بھر جواب نہیں دے سکا عدمؔ
وہ اک نظر میں اتنے سوالات کر گئے

عبد الحمید عدم




ساقی مجھے شراب کی تہمت نہیں پسند
مجھ کو تری نگاہ کا الزام چاہیئے

the charge of being affected by wine, I do despise
I want to be accused of feasting from your eyes

عبد الحمید عدم




ساقی ذرا نگاہ ملا کر تو دیکھنا
کمبخت ہوش میں تو نہیں آ گیا ہوں میں

عبد الحمید عدم




بے خود بھی ہیں ہشیار بھی ہیں دیکھنے والے
ان مست نگاہوں کی ادا اور ہی کچھ ہے

ابو الکلام آزاد




ہے تیرے لیے سارا جہاں حسن سے خالی
خود حسن اگر تیری نگاہوں میں نہیں ہے

افسر میرٹھی




یہ کن نظروں سے تو نے آج دیکھا
کہ تیرا دیکھنا دیکھا نہ جائے

احمد فراز