اپنی آنکھوں پر وہ نیندوں کی ردا اوڑھے ہوئے
سو رہا ہے خواب کا اک سلسلہ اوڑھے ہوئے
سردیوں کی رات میں وہ بے مکاں مفلس بشر
کس طرح رہتا ہے اکلوتی ردا اوڑھے ہوئے
اک عجب انداز سے آئی لحد پر اک دلہن
چوڑیاں توڑے ہوئے دست حنا اوڑھے ہوئے
خیر مقدم کے لئے بڑھنے لگیں میری طرف
منزلیں اپنے سروں پر راستہ اوڑھے ہوئے
پیڑ کے نیچے ذرا سی چھاؤں جو اس کو ملی
سو گیا مزدور تن پر بوریا اوڑھے ہوئے
تیری یادوں کے چراغوں نے کیا جھک کر سلام
جب چلی آندھی کوئی زور ہوا اوڑھے ہوئے
بھیڑ میں گم ہو گیا اک روز شاربؔ کا وجود
ڈھونڈھتا ہے جسم پر اپنا پتا اوڑھے ہوئے
غزل
اپنی آنکھوں پر وہ نیندوں کی ردا اوڑھے ہوئے
شارب مورانوی