کسی کے زخم پر اشکوں کا پھاہا رکھ دیا جائے
چلو سورج کے سر پر تھوڑا سایہ رکھ دیا جائے
مرے مالک سر شاخ شجر اک پھول کی مانند
مری بے داغ پیشانی پہ سجدہ رکھ دیا جائے
گنہ گاروں نے سوچا ہے مسلسل نیکیاں کر کے
شب ظلمت کے سینے پر اجالا رکھ دیا جائے
تن بے سر ہوں میرے سائے میں اب کون بیٹھے گا
درختوں میں مرے حصے کا سایہ رکھ دیا جائے
بلاتے ہیں ہمیں محنت کشوں کے ہاتھ کے چھالے
چلو محتاج کے منہ میں نوالہ رکھ دیا جائے
دعائیں مانگتے ہیں وہ ہمارے رزق کی خاطر
فقیروں کے لئے تھوڑا سا آٹا رکھ دیا جائے
مجھے چلنے نہیں دیں گے یہ میرے پاؤں کے چھالے
مرے تلووں کے نیچے کوئی کانٹا رکھ دیا جائے
رواجوں کی وہ کثرت ہے کہ دم گھٹنے لگا اپنا
اٹھا کر اب رضاؔ پارینہ قصہ رکھ دیا جائے
غزل
کسی کے زخم پر اشکوں کا پھاہا رکھ دیا جائے
رضا مورانوی