EN हिंदी
خیٹ شیاری | شیح شیری

خیٹ

42 شیر

کسی نا خواندہ بوڑھے کی طرح خط اس کا پڑھتا ہوں
کہ سو سو بار اک اک لفظ سے انگلی گزرتی ہے

اطہر نفیس




وہ تڑپ جائے اشارہ کوئی ایسا دینا
اس کو خط لکھنا تو میرا بھی حوالہ دینا

اظہر عنایتی




پتا ملتا نہیں اس بے نشاں کا
لیے پھرتا ہے قاصد جا بجا خط

بہرام جی




ہو چکا عیش کا جلسہ تو مجھے خط بھیجا
آپ کی طرح سے مہمان بلائے کوئی

داغؔ دہلوی




کیا کیا فریب دل کو دئیے اضطراب میں
ان کی طرف سے آپ لکھے خط جواب میں

داغؔ دہلوی




غصے میں برہمی میں غضب میں عتاب میں
خود آ گئے ہیں وہ مرے خط کے جواب میں

دواکر راہی




اشکوں کے نشاں پرچۂ سادہ پہ ہیں قاصد
اب کچھ نہ بیاں کر یہ عبارت ہی بہت ہے

احسن علی خاں