EN हिंदी
خیٹ شیاری | شیح شیری

خیٹ

42 شیر

میں نے اس کی طرف سے خط لکھا
اور اپنے پتے پہ بھیج دیا

فہمی بدایونی




کیا بھول گئے ہیں وہ مجھے پوچھنا قاصد
نامہ کوئی مدت سے مرے کام نہ آیا

فنا بلند شہری




ناامیدی موت سے کہتی ہے اپنا کام کر
آس کہتی ہے ٹھہر خط کا جواب آنے کو ہے

فانی بدایونی




روح گھبرائی ہوئی پھرتی ہے میری لاش پر
کیا جنازے پر میرے خط کا جواب آنے کو ہے

فانی بدایونی




آج کا خط ہی اسے بھیجا ہے کورا لیکن
آج کا خط ہی ادھورا نہیں لکھا میں نے

حامد مختار حامد




یا اس سے جواب خط لانا یا قاصد اتنا کہہ دینا
بچنے کا نہیں بیمار ترا ارشاد اگر کچھ بھی نہ ہوا

حقیر




کبھی یہ فکر کہ وہ یاد کیوں کریں گے ہمیں
کبھی خیال کہ خط کا جواب آئے گا

ہجرؔ ناظم علی خان