EN हिंदी
خفا شیاری | شیح شیری

خفا

23 شیر

یہ جو راتوں کو مجھے خواب نہیں آتے عطاؔ
اس کا مطلب ہے مرا یار خفا ہے مجھ سے

احمد عطا




کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم
تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ

احمد فراز




مجھ سے بگڑ گئے تو رقیبوں کی بن گئی
غیروں میں بٹ رہا ہے مرا اعتبار آج

احمد حسین مائل




کسی معشوق کا عاشق سے خفا ہو جانا
روح کا جسم سے گویا ہے جدا ہو جانا

احسن مارہروی




خفا ہیں پھر بھی آ کر چھیڑ جاتے ہیں تصور میں
ہمارے حال پر کچھ مہربانی اب بھی ہوتی ہے

اختر شیرانی




عشق میں تہذیب کے ہیں اور ہی کچھ فلسفے
تجھ سے ہو کر ہم خفا خود سے خفا رہنے لگے

عالم خورشید




میری بیتابیوں سے گھبرا کر
کوئی مجھ سے خفا نہ ہو جائے

علیم اختر