میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
مجروح سلطانپوری
آپ کی یاد آتی رہی رات بھر
چشم نم مسکراتی رہی رات بھر
مخدومؔ محی الدین
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میرؔ
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
میر تقی میر
شہ زور اپنے زور میں گرتا ہے مثل برق
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے
ؔمرزا عظیم بیگ عظیم
اے صنم وصل کی تدبیروں سے کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے
مرزارضا برق ؔ
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
میاں داد خاں سیاح
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
the love that 'tween us used to be, you may, may not recall
those promises of constancy, you may, may not recall
مومن خاں مومن