EN हिंदी
روشنی در پہ کھڑی مجھ کو بلاتی کیوں ہے | شیح شیری
raushni dar pe khaDi mujhko bulati kyun hai

غزل

روشنی در پہ کھڑی مجھ کو بلاتی کیوں ہے

سخاوت شمیم

;

روشنی در پہ کھڑی مجھ کو بلاتی کیوں ہے
میں اندھیرے میں ہوں احساس دلاتی کیوں ہے

رات حصہ ہے مری عمر کا جی لینے دے
زندگی چھوڑ کے تنہا مجھے جاتی کیوں ہے

شہر کے لوگ تو سڑکوں پہ رہا کرتے ہیں
گھر بنانے کی لگن مجھ کو ستاتی کیوں ہے

گمرہی سے بھی مرا ذوق سفر کم تو نہیں
راہ لیکن مرے قدموں کو چراتی کیوں ہے

جاں بلب لمحۂ تسکیں مری قسمت ہے شمیمؔ
بے خودی پھر مجھے دیوانہ بناتی کیوں ہے