روشنی در پہ کھڑی مجھ کو بلاتی کیوں ہے
میں اندھیرے میں ہوں احساس دلاتی کیوں ہے
رات حصہ ہے مری عمر کا جی لینے دے
زندگی چھوڑ کے تنہا مجھے جاتی کیوں ہے
شہر کے لوگ تو سڑکوں پہ رہا کرتے ہیں
گھر بنانے کی لگن مجھ کو ستاتی کیوں ہے
گمرہی سے بھی مرا ذوق سفر کم تو نہیں
راہ لیکن مرے قدموں کو چراتی کیوں ہے
جاں بلب لمحۂ تسکیں مری قسمت ہے شمیمؔ
بے خودی پھر مجھے دیوانہ بناتی کیوں ہے
غزل
روشنی در پہ کھڑی مجھ کو بلاتی کیوں ہے
سخاوت شمیم