وصل کی رات ہم نشیں کیونکہ کٹی نہ پوچھ کچھ
برسر صلح میں رہا اس پہ بھی وہ لڑا کیا
شاہ نصیر
وصل کی رات ہم نشیں کیونکہ کٹی نہ پوچھ کچھ
برسر صلح میں رہا اس پہ بھی وہ لڑا کیا
شاہ نصیر
یہ ابر ہے یا فیل سیہ مست ہے ساقی
بجلی کے جو ہے پاؤں میں زنجیر ہوا پر
شاہ نصیر
یہ چرخ نیلگوں اک خانۂ پر دود ہے یارو
نہ پوچھو ماجرا کچھ چشم سے آنسو بہانے کا
شاہ نصیر
یہ چرخ نیلگوں اک خانۂ پر دود ہے یارو
نہ پوچھو ماجرا کچھ چشم سے آنسو بہانے کا
شاہ نصیر
یہ داغ نہیں تن پر میں دیکھنے کو تیرے
اے رنگ گل خوبی آنکھیں ہوں لگا لایا
شاہ نصیر
یہ نگل جائے گی اک دن تری چوڑائی چرخ
گر کبھو تجھ سے زمیں ہم نے بھی نپوائی چرخ
شاہ نصیر