EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

تار نفس الجھ گیا میرے گلو میں آ کے جب
ناخن تیغ یار کو میں نے گرہ کشا کیا

شاہ نصیر




تیرے خیال ناف سے چکر میں کیا ہے دل
گرداب سے نکل کے شناور نہیں پھرا

شاہ نصیر




ترے ہی نام کی سمرن ہے مجھ کو اور تسبیح
تو ہی ہے ورد ہر اک صبح و شام عاشق کا

شاہ نصیر




تشنگی خاک بجھے اشک کی طغیانی سے
عین برسات میں بگڑے ہے مزا پانی کا

شاہ نصیر




تو تو اک پرچہ بھی واں سے نامہ بر لایا نہ آہ
زندگی کیوں کر ہو گر ہم دل کو پر جاویں نہیں

شاہ نصیر




تو تو اک پرچہ بھی واں سے نامہ بر لایا نہ آہ
زندگی کیوں کر ہو گر ہم دل کو پر جاویں نہیں

شاہ نصیر




وقت نماز ہے ان کا قامت گاہ خدنگ و گاہ کماں
بن جاتے ہیں اہل عبادت گاہ خدنگ و گاہ کماں

شاہ نصیر