EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

بوسۂ خال لب جاناں کی کیفیت نہ پوچھ
نشۂ مے سے زیادہ نشۂ افیوں ہوا

شاہ نصیر




برقعہ کو الٹ مجھ سے جو کرتا ہے وہ باتیں
اب میں ہمہ تن گوش بنوں یا ہمہ تن چشم

شاہ نصیر




چمن میں دیکھتے ہی پڑ گئی کچھ اوس غنچوں پر
ترے بستاں پہ عالم ہے عجب شبنم کے محرم کا

شاہ نصیر




چمن میں غنچہ منہ کھولے ہے جب کچھ دل کی کہنے کو
نسیم صبح بھر رکھتی ہے باتوں میں لگا لپٹا

شاہ نصیر




دیر و کعبہ میں تفاوت خلق کے نزدیک ہے
شاہد معنی کا ہر صورت ہے گھر دونوں طرف

شاہ نصیر




دے مجھ کو بھی اس دور میں ساقی سپر جام
ہر موج ہوا کھینچے ہے شمشیر ہوا پر

شاہ نصیر




دے مجھ کو بھی اس دور میں ساقی سپر جام
ہر موج ہوا کھینچے ہے شمشیر ہوا پر

شاہ نصیر