بوسۂ خال لب جاناں کی کیفیت نہ پوچھ
نشۂ مے سے زیادہ نشۂ افیوں ہوا
شاہ نصیر
برقعہ کو الٹ مجھ سے جو کرتا ہے وہ باتیں
اب میں ہمہ تن گوش بنوں یا ہمہ تن چشم
شاہ نصیر
چمن میں دیکھتے ہی پڑ گئی کچھ اوس غنچوں پر
ترے بستاں پہ عالم ہے عجب شبنم کے محرم کا
شاہ نصیر
چمن میں غنچہ منہ کھولے ہے جب کچھ دل کی کہنے کو
نسیم صبح بھر رکھتی ہے باتوں میں لگا لپٹا
شاہ نصیر
دیر و کعبہ میں تفاوت خلق کے نزدیک ہے
شاہد معنی کا ہر صورت ہے گھر دونوں طرف
شاہ نصیر
دے مجھ کو بھی اس دور میں ساقی سپر جام
ہر موج ہوا کھینچے ہے شمشیر ہوا پر
شاہ نصیر
دے مجھ کو بھی اس دور میں ساقی سپر جام
ہر موج ہوا کھینچے ہے شمشیر ہوا پر
شاہ نصیر