EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

غزل اس بحر میں کیا تم نے لکھی ہے یہ نصیرؔ
جس سے ہے رنگ گل معنیٔ مشکل ٹپکا

شاہ نصیر




غرور حسن نہ کر جذبۂ زلیخا دیکھ
کیا ہے عشق نے یوسف غلام عاشق کا

شاہ نصیر




ہم دکھائیں گے تماشہ تجھ کو پھر سرو چمن
دل سے گر سرزد ہمارے نالۂ موزوں ہوا

شاہ نصیر




ہم ہیں اور مجنوں ازل سے خانہ پرورد جنوں
اس نے کی صحرا نوردی ہم نے گلیاں دیکھیاں

شاہ نصیر




ہم وہ فلک ہیں اہل توکل کہ مثل ماہ
رکھتے نہیں ہیں نان شبینہ برائے صبح

شاہ نصیر




ہوا پر ہے یہ بنیاد مسافر خانۂ ہستی
نہ ٹھہرا ہے کوئی یاں اے دل محزوں نہ ٹھہرے گا

شاہ نصیر




ہو گفتگو ہماری اور اب اس کی کیونکہ آہ
اس کے دہاں نہیں تو ہماری زباں نہیں

شاہ نصیر