بھرے ہوں آنکھ میں آنسو خمیدہ گردن ہو
تو خامشی کو بھی اظہار مدعا کہیے
شاد عظیم آبادی
چمن میں جا کے ہم نے غور سے اوراق گل دیکھے
تمہارے حسن کی شرحیں لکھی ہیں ان رسالوں میں
شاد عظیم آبادی
ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
جو یاد نہ آئے بھول کے پھر اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
شاد عظیم آبادی
ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
جو یاد نہ آئے بھول کے پھر اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
شاد عظیم آبادی
دل مضطر سے پوچھ اے رونق بزم
میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں
شاد عظیم آبادی
ہزار شکر میں تیرے سوا کسی کا نہیں
ہزار حیف کہ اب تک ہوا نہ تو میرا
شاد عظیم آبادی
ہزار شکر میں تیرے سوا کسی کا نہیں
ہزار حیف کہ اب تک ہوا نہ تو میرا
شاد عظیم آبادی