EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ابھی سے چھوٹی ہوئی جا رہی ہیں دیواریں
ابھی تو بیٹی ذرا سی مری بڑی ہوئی ہے

شبانہ یوسف




اگر بچھڑنے کا اس سے کوئی ملال نہیں
شبانہؔ اشک سے پھر آنکھ کیوں بھری ہوئی ہے

شبانہ یوسف




اگر بچھڑنے کا اس سے کوئی ملال نہیں
شبانہؔ اشک سے پھر آنکھ کیوں بھری ہوئی ہے

شبانہ یوسف




اک یہی سوچ بچھڑنے نہیں دیتی تجھ سے
ہم تجھے بعد میں پھر یاد نہ آنے لگ جائیں

شبانہ یوسف




خود چراغوں کو اندھیروں کی ضرورت ہے بہت
روشنی ہو تو انہیں لوگ بجھانے لگ جائیں

شبانہ یوسف




خود چراغوں کو اندھیروں کی ضرورت ہے بہت
روشنی ہو تو انہیں لوگ بجھانے لگ جائیں

شبانہ یوسف




میں ہاتھ باندھے ہوئے لوٹ آئی ہوں گھر میں
کہ میرے پرس میں اک آرزو مری ہوئی ہے

شبانہ یوسف