EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ہے کس کا انتظار کہ خواب عدم سے بھی
ہر بار چونک پڑتے ہیں آواز پا کے ساتھ

مومن خاں مومن




ہے کچھ تو بات مومنؔ جو چھا گئی خموشی
کس بت کو دے دیا دل کیوں بت سے بن گئے ہو

مومن خاں مومن




ہم سمجھتے ہیں آزمانے کو
عذر کچھ چاہیے ستانے کو

مومن خاں مومن




ہو گئے نام بتاں سنتے ہی مومنؔ بے قرار
ہم نہ کہتے تھے کہ حضرت پارسا کہنے کو ہیں

مومن خاں مومن




ہو گیا راز عشق بے پردہ
اس نے پردہ سے جو نکالا منہ

مومن خاں مومن




اتنی کدورت اشک میں حیراں ہوں کیا کہوں
دریا میں ہے سراب کہ دریا سراب میں

مومن خاں مومن




کل تم جو بزم غیر میں آنکھیں چرا گئے
کھوئے گئے ہم ایسے کہ اغیار پا گئے

مومن خاں مومن