EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کچھ اس طرح سے گزاری ہے زندگی جیسے
تمام عمر کسی دوسرے کے گھر میں رہا

احمد فراز




کچھ مشکلیں ایسی ہیں کہ آساں نہیں ہوتیں
کچھ ایسے معمے ہیں کبھی حل نہیں ہوتے

احمد فراز




کیا کہیں کتنے مراسم تھے ہمارے اس سے
وہ جو اک شخص ہے منہ پھیر کے جانے والا

احمد فراز




لے اڑا پھر کوئی خیال ہمیں
ساقیا ساقیا سنبھال ہمیں

احمد فراز




لو پھر ترے لبوں پہ اسی بے وفا کا ذکر
احمد فرازؔ تجھ سے کہا نہ بہت ہوا

احمد فراز




میں بھی پلکوں پہ سجا لوں گا لہو کی بوندیں
تم بھی پا بستہ زنجیر حنا ہو جانا

احمد فراز




میں خود کو بھول چکا تھا مگر جہاں والے
اداس چھوڑ گئے آئینہ دکھا کے مجھے

احمد فراز