لے اڑا پھر کوئی خیال ہمیں
ساقیا ساقیا سنبھال ہمیں
رو رہے ہیں کہ ایک عادت ہے
ورنہ اتنا نہیں ملال ہمیں
خلوتی ہیں ترے جمال کے ہم
آئنے کی طرح سنبھال ہمیں
مرگ انبوہ جشن شادی ہے
مل گئے دوست حسب حال ہمیں
اختلاف جہاں کا رنج نہ تھا
دے گئے مات ہم خیال ہمیں
کیا توقع کریں زمانے سے
ہو بھی گر جرأت سوال ہمیں
ہم یہاں بھی نہیں ہیں خوش لیکن
اپنی محفل سے مت نکال ہمیں
ہم ترے دوست ہیں فرازؔ مگر
اب نہ اور الجھنوں میں ڈال ہمیں
غزل
لے اڑا پھر کوئی خیال ہمیں
احمد فراز