بھلا کیا طعنہ دوں زہاد کو زہد ریائی کا
پڑھی ہے میں نے مسجد میں نماز بے وضو برسوں
سید یوسف علی خاں ناظم
بوسۂ عارض مجھے دیتے ہوئے ڈرتا ہے کیوں
لوں گا کیا نوک زباں سے تیرے رخ کا تل اٹھا
سید یوسف علی خاں ناظم
چاہوں کہ حال وحشت دل کچھ رقم کروں
بھاگیں حروف وقت نگارش قلم سے دور
سید یوسف علی خاں ناظم
چلے ہو دشت کو ناظمؔ اگر ملے مجنوں
ذرا ہماری طرف سے بھی پیار کر لینا
سید یوسف علی خاں ناظم
ایک ہے جب مرجع اسلام و کفر
فرق کیسا سبحہ و زنار کا
سید یوسف علی خاں ناظم
گھر کی ویرانی کو کیا روؤں کہ یہ پہلے سی
تنگ اتنا ہے کہ گنجائش تعمیر نہیں
سید یوسف علی خاں ناظم
آ گیا دھیان میں مضموں تری یکتائی کا
آج مطلع ہوا مصرع مری تنہائی کا
سید یوسف علی خاں ناظم
ہے عید میکدے کو چلو دیکھتا ہے کون
شہد و شکر پہ ٹوٹ پڑے روزہ دار آج
سید یوسف علی خاں ناظم
ہے جلوہ فروشی کی دکاں جو یہ اب اسی نے
دیوار میں کھڑکی سر بازار نکالی
سید یوسف علی خاں ناظم