EN हिंदी
سید یوسف علی خاں ناظم شیاری | شیح شیری

سید یوسف علی خاں ناظم شیر

44 شیر

گھر کی ویرانی کو کیا روؤں کہ یہ پہلے سی
تنگ اتنا ہے کہ گنجائش تعمیر نہیں

سید یوسف علی خاں ناظم




آ گیا دھیان میں مضموں تری یکتائی کا
آج مطلع ہوا مصرع مری تنہائی کا

سید یوسف علی خاں ناظم




چلے ہو دشت کو ناظمؔ اگر ملے مجنوں
ذرا ہماری طرف سے بھی پیار کر لینا

سید یوسف علی خاں ناظم




چاہوں کہ حال وحشت دل کچھ رقم کروں
بھاگیں حروف وقت نگارش قلم سے دور

سید یوسف علی خاں ناظم




بوسۂ عارض مجھے دیتے ہوئے ڈرتا ہے کیوں
لوں گا کیا نوک زباں سے تیرے رخ کا تل اٹھا

سید یوسف علی خاں ناظم




بھلا کیا طعنہ دوں زہاد کو زہد ریائی کا
پڑھی ہے میں نے مسجد میں نماز بے وضو برسوں

سید یوسف علی خاں ناظم




بے دیے لے اڑا کبوتر خط
یوں پہنچتا ہے اوپر اوپر خط

سید یوسف علی خاں ناظم




برسوں ڈھونڈا کئے ہم دیر و حرم میں لیکن
کہیں پایا نہ پتا اس بت ہرجائی کا

سید یوسف علی خاں ناظم




بند محرم کے وہ کھلواتے ہیں ہم سے بیشتر
آج کل سونے کی چڑیا ہے ہمارے ہاتھ میں

سید یوسف علی خاں ناظم