اس بت کا کوچہ مسجد جامع نہیں ہے شیخ
اٹھئے اور اپنا یاں سے مصلیٰ اٹھائیے
سید یوسف علی خاں ناظم
واعظ و شیخ سبھی خوب ہیں کیا بتلاؤں
میں نے میخانے سے کس کس کو نکلتے دیکھا
سید یوسف علی خاں ناظم
وہی معبود ہے ناظمؔ جو ہے محبوب اپنا
کام کچھ ہم کو نہ مسجد سے نہ بت خانے سے
سید یوسف علی خاں ناظم
یہ کس زہرہ جبیں کی انجمن میں آمد آمد ہے
بچھایا ہے قمر نے چاندنی کا فرش محفل میں
سید یوسف علی خاں ناظم
ہے دور فلک ضعف میں پیش نظر اپنے
کس وقت ہم اٹھتے ہیں کہ چکر نہیں آتا
سید یوسف علی خاں ناظم
افسانۂ مجنوں سے نہیں کم مرا قصہ
اس بات کو جانے دو کہ مشہور نہیں ہے
سید یوسف علی خاں ناظم
بند محرم کے وہ کھلواتے ہیں ہم سے بیشتر
آج کل سونے کی چڑیا ہے ہمارے ہاتھ میں
سید یوسف علی خاں ناظم
برسوں ڈھونڈا کئے ہم دیر و حرم میں لیکن
کہیں پایا نہ پتا اس بت ہرجائی کا
سید یوسف علی خاں ناظم
بے دیے لے اڑا کبوتر خط
یوں پہنچتا ہے اوپر اوپر خط
سید یوسف علی خاں ناظم