زمیں پہ چل نہ سکا آسمان سے بھی گیا
کٹا کے پر کو پرندہ اڑان سے بھی گیا
کسی کے ہاتھ سے نکلا ہوا وہ تیر ہوں جو
ہدف کو چھو نہ سکا اور کمان سے بھی گیا
بھلا دیا تو بھلانے کی انتہا کر دی
وہ شخص اب مرے وہم و گمان سے بھی گیا
تباہ کر گئی پکے مکان کی خواہش
میں اپنے گاؤں کے کچے مکان سے بھی گیا
پرائی آگ میں کودا تو کیا ملا شاہدؔ
اسے بچا نہ سکا اپنی جان سے بھی گیا
غزل
زمیں پہ چل نہ سکا آسمان سے بھی گیا
شاہد کبیر