ماڈرن ہیریں تو زر داروں کے ہاں رہ جائیں گی
اور رانجھوں کے لبوں پر مرلیاں رہ جائیں گی
ہو سکے تو تم بچا لو اب بھی دیسی نسل کو
ورنہ پیچھے صرف ''شیور'' مرغیاں رہ جائیں گی
''سن فلاور'' ہو گیا ہے ابن آدم کی غذا
اب چمن زاروں میں گویا سبزیاں رہ جائیں گی
چھوٹی قوموں پر اگر ''ویٹو'' کا لٹھ چلتا رہا
صرف ''یو۔این۔او'' میں غنڈہ گردیاں رہ جائیں گی
نیک سیرت شوہروں کو دیکھ کر حوروں کے بیچ
خلد کے اندر تڑپ کر بیویاں رہ جائیں گی
ظلمتیں ہوں گی توانائی کے اس بحران میں
صرف آنکھوں میں چمکتی بجلیاں رہ جائیں گی
مرغ پر فوراً جھپٹ دعوت میں ورنہ بعد میں
شوربہ اور گردنوں کی ہڈیاں رہ جائیں گی
گھر کے گل دانوں میں شاہدؔ پھول ہوں گے کاغذی
اور پردوں پر ''پرنٹڈ'' تتلیاں رہ جائیں گی
غزل
ماڈرن ہیریں تو زر داروں کے ہاں رہ جائیں گی
سرفراز شاہد