قابض رہا ہے دل پہ جو سلطان کی طرح
آخر نکل گیا شہ ایران کی طرح
ظاہر میں سرد و زرد ہے کاغان کی طرح
لیکن مزاج اس کا ہے ملتان کی طرح
راز و نیاز میں بھی اکڑ فوں نہیں گئی
وہ خط بھی لکھ رہا ہے تو چالان کی طرح
لقمہ حلال کا جو ملا اہل کار کو
اس نے چبا کے تھوک دیا پان کی طرح
ذکر اس پری جمال کا جب اور جہاں چھڑا
فوراً رقیب آ گیا شیطان کی طرح
اک لمحہ اس کی دید ہوئی بس کی بھیڑ میں
اور پھر وہ کھو گیا مرے اوسان کی طرح
میں مبتلائے قرض رہا چار سال تک
وہ صرف چار دن رہا مہمان کی طرح
ہر بات کے جواب میں فوراً نہیں نہیں
نکلا زبان یار سے گردان کی طرح
شاہدؔ سے کہہ رہے ہو کہ روزے رکھا کرے
ہر ماہ جس کا گزرا ہے رمضان کی طرح
غزل
قابض رہا ہے دل پہ جو سلطان کی طرح
سرفراز شاہد