EN हिंदी
عشق میں کچھ اس سبب سے بھی ہے آسانی مجھے | شیح شیری
ishq mein kuchh is sabab se bhi hai aasani mujhe

غزل

عشق میں کچھ اس سبب سے بھی ہے آسانی مجھے

سرفراز شاہد

;

عشق میں کچھ اس سبب سے بھی ہے آسانی مجھے
قلب صحرائی ملا ہے آنکھ بارانی مجھے

میرے اور میرے چچا کے دور میں یہ فرق ہے
ان کو تو بیوی ملی تھی اور استانی مجھے

ایک ہی مصرعے میں دس دس بار دل بریاں ہوا
وہ غزل میں باندھ کر دیتے ہیں بریانی مجھے

کوکا کولا کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
ریل کے ڈبے میں کیوں ملتا نہیں پانی مجھے

زخم وہ دل پر لگاتے ہیں مرے اور اس پہ روز
اپنے گھر سے بھیج دیتے ہیں نمک دانی مجھے

سارے شکوے دور ہو جائیں جو قدرت سونپ دے
میری دانائی تجھے اور تیری نادانی مجھے

پھونک دیتا ہوں میں اس پر اپنا کوئی شعر خوش
جب ڈراتا ہے کوئی اندوہ پنہانی مجھے