EN हिंदी
رئیس امروہوی شیاری | شیح شیری

رئیس امروہوی شیر

16 شیر

خاموش زندگی جو بسر کر رہے ہیں ہم
گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہیں ہم

رئیس امروہوی




کس نے دیکھے ہیں تری روح کے رستے ہوئے زخم
کون اترا ہے ترے قلب کی گہرائی میں

رئیس امروہوی




پہلے بھی خراب تھی یہ دنیا
اب اور خراب ہو گئی ہے

رئیس امروہوی




پہلے یہ شکر کہ ہم حد ادب سے نہ بڑھے
اب یہ شکوہ کہ شرافت نے کہیں کا نہ رکھا

رئیس امروہوی




صدیوں تک اہتمام شب ہجر میں رہے
صدیوں سے انتظار سحر کر رہے ہیں ہم

رئیس امروہوی




صرف تاریخ کی رفتار بدل جائے گی
نئی تاریخ کے وارث یہی انساں ہوں گے

رئیس امروہوی




ٹہنی پہ خموش اک پرندہ
ماضی کے الٹ رہا ہے دفتر

رئیس امروہوی