ہر وقت محویت ہے یہی سوچتا ہوں میں
کیوں برق نے جلایا مرا آشیاں نہ پوچھ
قمر جلالوی
آئیں ہیں وہ مزار پہ گھونگھٹ اتار کے
مجھ سے نصیب اچھے ہے میرے مزار کے
قمر جلالوی
جلوہ گر بزم حسیناں میں ہیں وہ اس شان سے
چاند جیسے اے قمرؔ تاروں بھری محفل میں ہے
قمر جلالوی
جگر کا داغ چھپاؤ قمرؔ خدا کے لئے
ستارے ٹوٹتے ہیں ان کے دیدۂ نم سے
قمر جلالوی
کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو
نہ جانے کیسے خبر ہو گئی زمانے کو
قمر جلالوی
خون ہوتا ہے سحر تک مرے ارمانوں کا
شام وعدہ جو وہ پابند حنا ہوتا ہے
قمر جلالوی
میں ان سب میں اک امتیازی نشاں ہوں فلک پر نمایاں ہیں جتنے ستارے
قمرؔ بزم انجم کی مجھ کو میسر صدارت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
قمر جلالوی
مدتیں ہوئیں اب تو جل کے آشیاں اپنا
آج تک یہ عالم ہے روشنی سے ڈرتا ہوں
قمر جلالوی
مجھے میرے مٹنے کا غم ہے تو یہ ہے
تمہیں بے وفا کہہ رہا ہے زمانہ
قمر جلالوی