جلوہ گر بزم حسیناں میں ہیں وہ اس شان سے
چاند جیسے اے قمرؔ تاروں بھری محفل میں ہے
قمر جلالوی
آئیں ہیں وہ مزار پہ گھونگھٹ اتار کے
مجھ سے نصیب اچھے ہے میرے مزار کے
قمر جلالوی
ہر وقت محویت ہے یہی سوچتا ہوں میں
کیوں برق نے جلایا مرا آشیاں نہ پوچھ
قمر جلالوی
دبا کے قبر میں سب چل دیے دعا نہ سلام
ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو
قمر جلالوی
بڑھا بڑھا کے جفائیں جھکا ہی دو گے کمر
گھٹا گھٹا کے قمرؔ کو ہلال کر دو گے
قمر جلالوی
ایسے میں وہ ہوں باغ ہو ساقی ہو اے قمرؔ
لگ جائیں چار چاند شب ماہتاب میں
قمر جلالوی
اگر آ جائے پہلو میں قمرؔ وہ ماہ کامل بھی
دو عالم جگمگا اٹھیں گے دوہری چاندنی ہوگی
قمر جلالوی
ابھی باقی ہیں پتوں پر جلے تنکوں کی تحریریں
یہ وہ تاریخ ہے بجلی گری تھی جب گلستاں پر
قمر جلالوی
اب نزع کا عالم ہے مجھ پر تم اپنی محبت واپس لو
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں
my end is now upon me, take back your
for when a ship is sinking, the burden is removed
قمر جلالوی