EN हिंदी
پروین ام مشتاق شیاری | شیح شیری

پروین ام مشتاق شیر

38 شیر

دیکھنے والے یہ کہتے ہیں کتاب دہر میں
تو سراپا حسن کا نقشہ ہے میں تصویر عشق

پروین ام مشتاق




دلوایئے بوسہ دھیان بھی ہے
اس قرضۂ واجب الادا کا

پروین ام مشتاق




آب دیدہ ہو کے وہ آپس میں کہنا الوداع
اس کی کم میری سوا آواز بھرائی ہوئی

پروین ام مشتاق




فرق کیا مقتل میں اور گلزار میں
ڈھال میں ہیں پھول پھل تلوار میں

پروین ام مشتاق




گر آپ پہلے رشتۂ الفت نہ توڑتے
مر مٹ کے ہم بھی خیر نبھاتے کسی طرح

پروین ام مشتاق




ہوا میں جب اڑا پردہ تو اک بجلی سی کوندی تھی
خدا جانے تمہارا پرتو رخسار تھا کیا تھا

پروین ام مشتاق




ہوتی نہ شریعت میں پرستش کبھی ممنوع
گر پہلے بھی بت خانوں میں ہوتے صنم ایسے

پروین ام مشتاق




اک ادنیٰ سا پردہ ہے اک ادنیٰ سا تفاوت
مخلوق میں معبود میں بندہ میں خدا میں

پروین ام مشتاق




جاں گھل چکی ہے غم میں اک تن ہے وہ بھی مہمل
معنی نہیں ہیں بالکل مجھ میں اگر بیاں ہوں

پروین ام مشتاق