زاہد سنبھل غرور خدا کو نہیں پسند
فرش زمیں پہ پاؤں دماغ آسمان پر
پروین ام مشتاق
دیئے جائیں گے کب تک شیخ صاحب کفر کے فتوے
رہیں گی ان کے صندوقچہ میں دیں کی کنجیاں کب تک
پروین ام مشتاق
اگر لوہے کے گنبد میں رکھیں گے اقربا ان کو
وہیں پہنچائے گا عاشق کسی تدبیر سے کاغذ
پروین ام مشتاق
اہل دنیا باؤلے ہیں باؤلوں کی تو نہ سن
نیند اڑاتا ہو جو افسانہ اس افسانہ سے بھاگ
پروین ام مشتاق
اے صبا چلتی ہے کیوں اس درجہ اترائی ہوئی
اڑ گئی کافور بن بن کر حیا آئی ہوئی
پروین ام مشتاق
بال رخساروں سے جب اس نے ہٹائے تو کھلا
دو فرنگی سیر کو نکلے ہیں ملک شام سے
پروین ام مشتاق
بد قسمتوں کو گر ہو میسر شب وصال
سورج غروب ہوتے ہی ظاہر ہو نور صبح
پروین ام مشتاق
بھیج تو دی ہے غزل دیکھیے خوش ہوں کہ نہ ہوں
کچھ کھٹکتے ہوئے الفاظ نظر آتے ہیں
پروین ام مشتاق
چبھیں گے زیرہ ہائے شیشۂ دل دست نازک میں
سنبھل کر ہاتھ ڈالا کیجیے میرے گریباں پر
پروین ام مشتاق