دیئے جائیں گے کب تک شیخ صاحب کفر کے فتوے
رہیں گی ان کے صندوقچہ میں دیں کی کنجیاں کب تک
پروین ام مشتاق
آب دیدہ ہو کے وہ آپس میں کہنا الوداع
اس کی کم میری سوا آواز بھرائی ہوئی
پروین ام مشتاق
دیکھنے والے یہ کہتے ہیں کتاب دہر میں
تو سراپا حسن کا نقشہ ہے میں تصویر عشق
پروین ام مشتاق
چبھیں گے زیرہ ہائے شیشۂ دل دست نازک میں
سنبھل کر ہاتھ ڈالا کیجیے میرے گریباں پر
پروین ام مشتاق
بھیج تو دی ہے غزل دیکھیے خوش ہوں کہ نہ ہوں
کچھ کھٹکتے ہوئے الفاظ نظر آتے ہیں
پروین ام مشتاق
بد قسمتوں کو گر ہو میسر شب وصال
سورج غروب ہوتے ہی ظاہر ہو نور صبح
پروین ام مشتاق
بال رخساروں سے جب اس نے ہٹائے تو کھلا
دو فرنگی سیر کو نکلے ہیں ملک شام سے
پروین ام مشتاق
اے صبا چلتی ہے کیوں اس درجہ اترائی ہوئی
اڑ گئی کافور بن بن کر حیا آئی ہوئی
پروین ام مشتاق
اہل دنیا باؤلے ہیں باؤلوں کی تو نہ سن
نیند اڑاتا ہو جو افسانہ اس افسانہ سے بھاگ
پروین ام مشتاق