EN हिंदी
میر اثر شیاری | شیح شیری

میر اثر شیر

23 شیر

کیا کہوں کس طرح سے جیتا ہوں
غم کو کھاتا ہوں آنسو پیتا ہوں

میر اثر




آسودگی کہاں جو دل زار ساتھ ہے
مرنے کے بعد بھی یہی آزار ساتھ ہے

میر اثر




کن نے کہا اور سے نہ مل تو
پر ہم سے بھی کبھو ملا کر

میر اثر




کام تجھ سے ابھی تو ساقی ہے
کہ ذرا ہم کو ہوش باقی ہے

میر اثر




جس گھڑی گھورتے ہو غصہ سے
نکلے پڑتا ہے پیار آنکھوں میں

میر اثر




جنت ہے اس بغیر جہنم سے بھی زبوں
دوزخ بہشت ہے گی اگر یار ساتھ ہے

میر اثر




درد دل چھوڑ جائیے سو کہاں
اپنی باہر تو یہاں گزر ہی نہیں

میر اثر




بے وفا کچھ نہیں تیری تقصیر
مجھ کو میری وفا ہی راس نہیں

میر اثر




اپنے نزدیک درد دل میں کہا
تیرے نزدیک قصہ خوانی کی

میر اثر