EN हिंदी
آسودگی کہاں جو دل زار ساتھ ہے | شیح شیری
aasudgi kahan jo dil-e-zar sath hai

غزل

آسودگی کہاں جو دل زار ساتھ ہے

میر اثر

;

آسودگی کہاں جو دل زار ساتھ ہے
مرنے کے بعد بھی یہی آزار ساتھ ہے

انجام ہو بخیر الٰہی برے ہیں ڈھنگ
ہر روزگار ایسے جفاکار ساتھ ہے

گر صرف دل میں چشمۂ خوں ہو تو خشک ہو
طوفاں یہ ہے کہ دیدۂ خوں بار ساتھ ہے

دیکھیں بھلا ٹک اک تو جفا کیجے اور سے
کیا شیخی ساری اس ہی گنہ گار ساتھ ہے

اے شانہ زلف یار سے پیچش نہ کیجیو
وابستہ میری جان ہر اک تار ساتھ ہے

جنت ہے اس بغیر جہنم سے بھی زبوں
دوزخ بہشت ہے گی اگر یار ساتھ ہے

مشکل ہے تاکہ ہستی ہے جاوے خودی کا شرک
تار نفس نہیں ہے یہ زنار ساتھ ہے

ہوتی ہے بات بات میں وہ چشم خشمگیں
صحبت اثرؔ ہمیں سدا بیمار ساتھ ہے