جو اپنی نیند کی پونجی بھی کب کی کھو چکی ہیں
انہیں آنکھوں میں ہم اک خواب رکھنا چاہتے ہیں
منظور ہاشمی
جتنے اس کے فراق میں گزرے
دن وہ شامل کہاں ہیں جینے میں
منظور ہاشمی
اسی امید پہ برسیں گزار دیں ہم نے
وہ کہہ گیا تھا کہ موسم پلٹ کے آتے ہیں
منظور ہاشمی
اک زمانہ ہے ہواؤں کی طرف
میں چراغوں کی طرف ہو جاؤں
منظور ہاشمی
ہمارے ساتھ بھی چلتا ہے رستا
ہمارے بعد بھی رستا چلے گا
منظور ہاشمی
ہمارے لفظ آئندہ زمانوں سے عبارت ہیں
پڑھا جائے گا کل جو آج وہ تحریر کرتے ہیں
منظور ہاشمی
ہدف بھی مجھ کو بنانا ہے اور میرے حریف
مجھی سے تیر مجھی سے کمان مانگتے ہیں
منظور ہاشمی
فراق بچھڑی ہوئی خوشبوؤں کا سہ نہ سکیں
تو پھول اپنا بدن پارا پارا کرتے ہیں
منظور ہاشمی
چیخ و پکار میں تو ہیں شامل تمام لوگ
کیا بات ہے یہ کوئی بتا بھی نہیں رہا
منظور ہاشمی