EN हिंदी
نئی زمیں نہ کوئی آسمان مانگتے ہیں | شیح شیری
nai zamin na koi aasman mangte hain

غزل

نئی زمیں نہ کوئی آسمان مانگتے ہیں

منظور ہاشمی

;

نئی زمیں نہ کوئی آسمان مانگتے ہیں
بس ایک گوشۂ امن و امان مانگتے ہیں

کچھ اب کے دھوپ کا ایسا مزاج بگڑا ہے
درخت بھی تو یہاں سائبان مانگتے ہیں

ہمیں بھی آپ سے اک بات عرض کرنا ہے
پر اپنی جان کی پہلے امان مانگتے ہیں

قبول کیسے کروں ان کا فیصلہ کہ یہ لوگ
مرے خلاف ہی میرا بیان مانگتے ہیں

ہدف بھی مجھ کو بنانا ہے اور میرے حریف
مجھی سے تیر مجھی سے کمان مانگتے ہیں

نئی فضا کے پرندے ہیں کتنے متوالے
کہ بال و پر سے بھی پہلے اڑان مانگتے ہیں